اپنی زبان منتخب کریں

جمعرات، 8 دسمبر، 2022

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار 3


اَلحَمدُ لِلّٰہِ نَحمَدُہ، وَنَستَعِینُہ، وَنَستَغفِرُہ، وَنَعُوذُبِاﷲِ مِن شُرُورِ اَنفُسِنَاوَمِن سَیِّئَآتِ اَعمَالِنَا مَن یَھدِہِ اﷲُ فَلَا مُضِلَّ لَہ، وَمَن یُضلِل فَلَا ھَادِیَ لَہ، وَاَشھَدُ اَن لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحدَہ، لَا شَرِیکَ لَہ، وَاَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبدُہ، وَرَسُولُہٗ ۔ أما بعد  

: اِنَّ اَصدَقَ الحَدِیثِ کِتَابُ اﷲِ وَاِنَّّ اَفضَلَ الھَدیِ ھَدیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرُّ الْامُورِ مُحدَثَاتُھَا وَ کُلُّ مُحدَثَۃٍ بِدعَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔ ‘ فقد قال اللہ تعالی فی کتابہ الکریم:

فتنوں کے دور میں مسلمان کا کردار

`8۔کثرت سے توبہ واستغفار کرنا
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ﴾ [الأنفال8 : 33]
’’
اور اللہ ایسے لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں جو استغفار کر رہے ہوں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾[ الأنعام6 :43]
’’
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے ؟ ( یعنی کیوں نہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا اور کیوں نہ معافی مانگی ؟ ) مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور شیطان نے انھیں ان کے اعمال خوبصورت بنا کر دکھلا دئیے۔‘‘
لہٰذا فتنوں کے دور میں مسلمانوں کو صدق دل سے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اپنے تمام گناہوں پر اس کے سامنے ندامت وشرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے معافی مانگنی چاہئے۔یوں اللہ تعالی انھیں اپنے فضل وکرم کے ساتھ فتنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
9۔فارغ اوقات کو نفع بخش امور میں مشغول کرنا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ )) ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔‘‘
1
۔(( شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ )) ’’ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے۔‘‘
2
۔(( وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ)) ’’ اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے۔‘‘
3
۔((وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ )) ’’ اپنی تونگری کو اپنی غربت سے پہلے۔‘‘
4
۔(( وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ )) ’’ اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے۔‘‘
5
۔(( وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ )) ’’ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘[ٔخرجہ الحاکم وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :3355]
اس حدیث میں مذکورہ پانچوں چیزیں( یعنی بڑھاپا، بیماری، غربت، مشغولیت اور موت ) انسان کیلئے فتنہ بن سکتی ہیں۔اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پہلے جوانی، تندرستی، تونگری، فراغت اور زندگی کو غنیمت سمجھ   کر ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا حکم دیا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :
(( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ خِصَالًا سِتًّا : إِمْرَۃَ السُّفَہَائِ،وَکَثْرَۃَ الشُّرَطِ،وَقَطِیْعَۃَ الرَّحِمِ، وَبَیْعَ الْحُکْمِ، وَاسْتِخْفَافًا بِالدَّمِ، وَنَشْأً یَتَّخِذُوْنَ الْقُرْآنَ مَزَامِیْرَ،یُقَدِّمُوْنَ الرَّجُلَ لَیْسَ بِأَفْقَہِہِمْ وَلَا أَعْلَمِہِمْ،مَا یُقَدِّمُوْنَہُ إِلَّا لِیُغَنِّیَہُمْ)) [السلسلۃ الصحیحۃ :979]
’’
تم چھ چیزوں کے آنے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرلو : احمق لوگوں کی حکمرانی، پولیس کی کثرت، قطع رحمی، فیصلے کو ( رشوت کے بدلے میں ) بیچنا، خون ( بہانے ) کو ہلکا سمجھنا اور ایسے نوخیز بچوں کا آنا جو قرآن مجید کو راگ گانا بنا لیں گے، لوگ ان میں سے ایک کو اس لئے امام نہیں بنائیں گے کہ وہ سب سے زیادہ سمجھ دار اور سب سے بڑا عالم ہوگا، بلکہ اس لئے کہ وہ ان کے سامنے قرآن کو گا کر پڑھے۔‘‘
اِس حدیث میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض فتنوں کے واقع ہونے سے پہلے جلدی جلدی عمل کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فارغ اوقات کو نفع بخش امور میں مشغول کرنے سے انسان فتنوں کے شر سے بچ سکتا ہے۔
10۔صبر کرنا
یعنی مختلف آزمائشوں اور فتنوں کو برداشت کرنا اور ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
((
وَاعْلَمْ أَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْکَرْبِ،وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ))
’’
اور یقین کر لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہر پریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے۔اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی کو لاتی ہے۔‘‘[ مسند أحمد :2804۔وصححہ الأرناؤط۔الترمذی : 2516۔وصححہ الألبانی]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مِن وَّرَائِکُمْ أَیَّامَ الصَّبْرِ، لِلْمُتَمَسِّکِ فِیْہِنَّ بِمَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرُ خَمْسِیْنَ مِنْکُمْ ))
’’
تمھارے بعد صبر کے ایام آنے والے ہیں۔ان میں جو شخص اُس دین کو مضبوطی سے تھامے رکھے گا جس پر تم قائم ہو، تو اسے تم میں سے پچاس افراد کا اجر ملے گا۔‘‘[ السلسلۃ الصحیحۃ : 494]
عزیزان گرامی ! ہم نے فتنوں کے شر سے بچنے کیلئے اب تک دس اسباب ذکر کئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔اور ہمیں ہر قسم کے فتنوں اور ان کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین
محترم حضرات ! فتنوں کے دور میں اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر میں سے ایک یہ ہے کہ
11۔منافقوں کی سازشوں سے خبردار رہا جائے
کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کی سازشوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، مسلمانوں کی قوت کا شیرازہ بکھیرنا اور ان میں پھوٹ ڈالنا ہوتا ہے۔یہ لوگ ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ کھڑا کردیتے ہیں اور مسلم ممالک میں انتشار، لا قانونیت اور فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالی مدینہ منورہ کے منافقوں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :
﴿ لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاْاَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ م بِالظّٰلِمِیْنَ ٭ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَۃَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَکَ الْاُمُوْرَ حَتّٰی جَآئَ الْحَقُّ وَ ظَھَرَ اَمْرُ اللّٰہِ وَ ھُمْ کٰرِھُوْنَ ﴾ [التوبۃ9 : 47۔48
’’
اگر وہ ( منافق ) تمھارے ساتھ نکلتے تو تمھارے لئے شر وفساد میں اضافہ ہی کرتے اور فتنہ پھیلانے کے ارادے سے تمھاری صفوں میں جھوٹی باتوں کے گھوڑے دوڑاتے۔اور اب بھی تمھارے درمیان ان کے جاسوس موجود ہیں۔اور اللہ تعالی ظالموں کو خوب جانتا ہے۔انھوں نے پہلے بھی ( غزوۂ احد اور غزوۂ خندق میں ) فتنہ پیدا کرنا چاہا اور معاملات کو آپ کیلئے الٹ پلٹ کر رہے تھے، یہاں تک کہ حق سامنے آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوااگرچہ وہ نہیں چاہتے تھے۔‘‘
یہی روش ہر دور کے منافق اختیار کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، جس سے مسلمانوں کو متنبہ رہنا چاہئے۔
12۔جلد بازی سے اجتناب
فتنوں کے شر سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ جب کبھی کوئی فتنہ اور آزمائش آئے تو مسلمان جلد بازی نہ کریں، بلکہ تحمل، برد باری اور ٹھہراؤ سے کام لیں۔اسباب وعوامل اور نتائج پر سوچ وبچار کریں، صائب الرائے لوگوں سے  مشاورت کریں۔اور اگر ملکی وقومی سطح پر کوئی آزمائش آئے تو ارباب اقتدار کو موزوں اقدامات اٹھانے دیں اور ان کے سامنے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کی بجائے ان کے دست وبازو بنیں۔افواہوں پر یقین نہ کریں، بلکہ ہر خبر کی تصدیق کریں۔افواہیں پھیلانا اور جھوٹی خبریں عام کرنا منافقوں کی روش ہے، نہ کہ سچے مومنوں کی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ اِذَاجَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ ﴾[ النساء4 :83]
’’
اور جب انھیں امن وخوف کی کوئی خبر ملتی ہے تو اسے پھیلانا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ارباب اقتدار کے سپرد کر دیتے تو ان میں سے تحقیق کی صلاحیت رکھنے والے اُس کی تہہ تک پہنچ جاتے۔‘‘
اِس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے منافقین ِ مدینہ منورہ کی روش کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے کہ وہ جنگ سے متعلق آنے والی ہر خبر کو بغیر تحقیق کے نشر کردیتے ہیں۔جس سے مسلمانوں کی صفوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔اور بعض کمزور ایمان والے مسلمان فتنے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اِس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اِس طرح کے معاملات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب بصیرت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر چھوڑ دیتے تو وہ یقینا ان کی تہہ تک پہنچ کر ان کا مناسب حل نکالتے۔
لہٰذا ہر دور میں مسلمانوں کو اِس قسم کے منافقوں اور ان کی سازشوں سے متنبہ رہنا چاہئے، یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے اسلامی معاشروں کو فتنوں کے شر سے بچا سکتے ہیں۔واللّٰه المستعان
باقی جہاں تک سوشل میڈیا پر گردش کرتی جھوٹی خبروں اور افواہوں کا تعلق ہے تو ان پر ہرگز یقین نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی انھیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا چاہئے، بلکہ ان کے بارے میں معتمد اور باوثوق ذرائع سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ﴾ [الحجرات49 :6]
’’
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچا دو۔پھر اپنے کئے پر تمھیں ندامت اٹھانی پڑے۔‘‘
آخر میں ہم ایک بار پھر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے اور ہمیں تمام فتنوں کے شر سے بچائے رکھے۔آمین

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں